"Operant Conditioning"
نفسیات کی دنیا میں سکنر( Skinner) کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ انہوں نے چوہوں کے اوپر کچھ تجربات کیے ہیں۔ چوہوں کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ پنجرے کے اندر مختلف طرح کے لیور لگے ہوئے تھے۔ وہاں انکو کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ وہ تنگ آ کر آگے پیچھے کے لیور کو پریس کرنے لگتے۔ ایک ایسا لیور تھا جس کو پریس کرنے سے پنجرے کے اندر کھانا داخل ہو جاتا۔ جبکہ ایک اور لیور کو پریس کرنے سے ان کو ایک بجلی کا جھٹکا لگا تھا۔ جب بھی وہ بھوکے ہوتے تو لیور کو پریس کرنا شروع کر دیتے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ صرف اور صرف اس ایک لیور کو ہی پریس کرتے جس سے کھانا داخل ہوتا تھا۔ اور جس لیور سے ان کو بجلی کا جھٹکا لگتا تھا اس کو انہوں نے مکمل طور پہ روک دیا۔ سکنر نے اس پہ مزید تجربات کیے اور ایک تھیوری دریافت کی۔ جس کو operant conditioning کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلےThorndike نے بھی law of effect دریافت کیا تھا جو کہ اس سے ملتا جلتا تھا۔ جبکہ سکنر نے اسی کو اپڈیٹ کر کے مزید اصول وضع کیے۔
اس تھیوری کا مطلب یہ تھا کہ اگر کسی کام کو کرنے سے ریوارڈ یا انعام ملے تو وہ کام دوبارہ کرنے کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ اور جس کام کو کرنے سے سزا ملے یا درد ہو وہ کام دوبارہ ہونے کے چانس کم ہوں گے۔
اس تھیوری یا اس اصول کو ہر میدان میں مثبت طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلا اداروں میں اگر ورکرز کو اچھا کام کرنے پر کوئی انعام دیا جائے یا ان کو شاباش دی جائے تو ان کے دوبارہ کام کرنے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی اسپورٹس کے اندر کسی کھلاڑی کو اچھا پرفارم کرنے پر انعام دیں اس کی پرفارمنس اور اچھی ہو جاتی ہے۔
اسی طرح ایجوکیشن کی فیلڈ میں اگر سٹوڈنٹس کو اچھا کام کرنے پر شاباش دی جائے، ان کی تعریف کی جائے تو وہ اس کام کو دوبارہ کریں گے۔
اس اصول کو تھراپی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا ڈپریشن کا مریض اپنے چھوٹے چھوٹے کام بھی نہیں کر پاتا۔ چھوٹے چھوٹے کام بھی اس کے لئے پہاڑ ہوتے ہیں۔ اس کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب آپ ایک چھوٹا کام کریں گے تو خود کو انعام دیں گے۔ وہ انعام کچھ بھی ہو سکتا ہے ایک چائے کا کپ ہوسکتا ہے، آئس کریم ہو سکتی ہے، یا کوئی اور اس کی پسند کی چیز ہو سکتی ہے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو اس کا ذہن دوبارہ وہ چھوٹے ٹاسک کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ اگلی دفعہ اس سے تھوڑا سا بڑا ٹاسک دیا جائے گا۔ اس طرح آہستہ آہستہ اس کو نارمل زندگی کے کاموں میں واپس لایا جاتا ہے۔ کیوں کہ ڈپریشن والا مریض ایک دم سے اپنی نارمل زندگی میں واپس نہیں آ سکتا۔ اس کو اپنی زندگی میں مایوسی ہوتی ہے۔ وہ خود سے قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اس کو کسی ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کا ہاتھ تھام کر واپس زندگی میں لے آئے۔
اگر بچوں کو آپ نے اچھی عادات سکھانی ہیں تو ان پے یہ اصول اپلائی کریں۔ مثلا آپ چاہتے ہیں کہ وہ روزانہ برش کریں۔ تو جب بھی وہ برش کریں، ان کو ایک کوپن دیا جا سکتا ہے۔ اور پانچ یا دس کوپن اکٹھے ہونے پر ان کی مرضی کی چیز لائی جا سکتی ہے۔ اس طرح ان کی مرضی ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ کوپن جلدی سے جلدی حاصل کیے جائیں، اس لیے وہ روز برش کریں گے۔ اور جب وہ کچھ عرصہ لگاتار کریں گے تو یہ ان کی عادت کا حصہ بن جائے گا۔ یہ کسی بھی عادت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے اپنی ساری چیزیں سنبھال کر رکھنا، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، وغیرہ۔ آپ اس میں کچھ اور اصول بھی بنا سکتے ہیں جیسے انہیں بتا سکتے ہیں کہ جب آپ بہن بھائیوں سے لڑائی کریں گے تو آپ کا ایک کوپن کٹ جائے گا، اس طرح اچھی عادات آجائیں گی اور بری عادات آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گی۔
اسی طرح جنسی معاملات میں بھی اس تکنیک کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جنسی تعلق میں ناکامی یا کامیابی کا تعلق ذہن سے ہوتا ہے، ایسے میں مریض کو کچھ چیزیں سکھائی جاتی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ آپ نے چھوٹی سی کامیابی پے خود کو انعام دینا ہے، جب وہ انعام لیتا ہے تو اس کا ذہن قبول کرنے لگتا ہے کہ وہ ٹھیک ہو رہا ہے، اس طرح ذہن کو یقین دینے میں مدد ملتی ہے، اس کا ذہن اگلی دفعہ اس سے تھوڑی سی بڑی کامیابی دلاتا ہے، آہستہ آہستہ اس کی پرفارمنس بڑھائی جاتی ہے۔
اس طرح آپ اس کو اپنے اوپر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیں اور ہر حصے کی کامیابی بھی خود کو شاباش دیں، خود کو انعام دیں، اپنے لئے تفریح کریں۔ یہ چیز بہت چھوٹی سی ہے لیکن آپ کے لیے بہت اہم ثابت ہوگی۔
اس کے علاوہ آپ اس کو ریلیشن شپ میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ مثلا اگر بیوی کبھی اچھا کھانا بنائے تو اس کی تعریف کی جائے یا اس کو کوئی چھوٹا موٹا انعام دیا جائے۔ اس سے بہت زیادہ چانسز ہونگے کہ وہ دوبارہ اچھا کھانا بنائے گی۔ لیکن اگر آپ یہ کام نہیں کرتے، اچھا کھانا بننے پر کوئی تعریف نہیں کرتے اور نہ ہی مسکراہٹ کا اظہار کرتے ہیں تو زیادہ چانسز یہی ہے کہ وہ دوبارہ دل سے اور شوق سے ایسا کھانا نہیں بنائے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح تجربات میں چوہوں نے کچھ لیور دبائے اور اس سے کوئی کھانا نہیں آیا تو بعد میں انہوں نے اس لیور کو دبانا ہی چھوڑ دیا۔ مطلب جن کاموں کو کرنے سے کوئی انعام نہیں ملتا وہ کام اکثر چھوٹ جاتے ہیں۔
سکنر کا ہی ایک قول ہے
" Properly used positive reinforcement is extremely powerful."
" مثبت انعام یا حوصلہ افزائی اگر اچھے طریقے سے استعمال کی جائے کہ یہ بہت زیادہ طاقتور ہے۔"
اسی طرح اگر آپ کسی بری عادت میں مبتلا ہیں اور اس کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو آپ باقی چیزوں کے ساتھ اس اصول کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
سائیکالوجی کے اصول کافی حد تک سادہ ہیں، اگر آپ ان کو صحیح سے سمجھ جاتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں تو یہ آپ کی زندگی کو بھی خوشگوار بنا دیں گے۔
آپ بتائیں آپ کو کون سی مثال اچھی لگی، اور اب آپ کس ایریا میں اس کو استعمال کرنا چائیں گے؟؟